Skip to main content

اقتصادی راہداری کا منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے.

اقتصادی راہداری کا منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے.

یہ ہزاروں کلومیٹر ریلویز، موٹرویز، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔ چین ہر روز 60 لاکھ بیرل تیل باہر سے منگواتا ہے جس کا سفر 12000 کلومیٹر بنتا ہے جبکہ یہی سفر گوادر سے صرف 3000 کلومیٹر رہ جائیگا۔ گوادر پورٹ آبنائے ہرمز پر دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ ہے۔ مصر کی نہر سویز سے پورے یورپ کے لیے روزانہ 40 لاکھ بیرل تیل جاتا ہے جبکہ گوادر سے صرف چین کے لیے روزانہ 60 لاکھ بیرل تیل جائیگا۔ چین کو سالانہ 20 ارب ڈالر بچت صرف تیل کی درآمد میں ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مد میں 5 ارب ڈالر سالانہ ملیں گے۔ سب سے بڑھ کر چین امریکہ اور انڈیا کی محتاجی سے نکل آئیگا جو اس وقت چین جانے والے سمندری راستوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ صرف اسی بات سے امریکہ اور بھارت سمیت تمام تر دشمن ممالک کو موت پڑ رہی ہے۔
ایشیا اور افریقہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہیں جبکہ یورپ صرف 13 فیصد بنتا ہے دنیا کی کل آبادی کا۔ روس اپنی تجارت اس خطے میں کرنا چاہتا ہے اس کے لیے روس کے پاس صرف دو ہی راستے ہیںایران کی چاہ بہار بندرگاہ جسکی گہرائی 11 میٹر سے زیادہ نہیں جبکہ دوسرا راستہ گوادر کا ہے جو دنیا کی تیسری سب سے گہری بندرگاہ ہے۔ سنٹرل ایشیاء کی ریاستیں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل اور گیس کا ذخیرہ رکھتی ہیں۔ جن کو وہ ان ممالک تک پہنچانا چاہتے ہین.
روس اور وسطی ایشائی ممالک گوادر کی بدولت بہت جلد پاکستان پر انحصار کرینگے۔ ایک اندازے کے مطابق 80 ہزار ٹرک روزانہ چین، روس اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک سے گوادر کی طرف آمدورفت کرینگے۔ پاکستان کو صرف ٹول پلازے کی مد میں ہی 20سے 25 ارب کی بچت ہوگی۔معاشی راہداری کے قریب بہت بڑے انرجی زون بنیں اور وہاں کام کرنے کے لیے چین سے زیادہ سستی افرادی قوت میسر ہوگی۔ اور تو اور اتنے لمبے روٹس پر صرف کینٹین، ٹائر پنکچر اور ڈسپنسری وغیرہ کی مد میں ہی ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار ملجائیگا۔ اللہ نے پاکستان کو جو سٹریٹیجک پوزیشن دی ہے وہ اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان پوری دنیا کی تیل، گیس اور ایگریکلچرل، صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن چکا ہے۔جو لوکیشن پاکستان کو میسر ہے قومیں اسکا خواب دیکھتی ہیں۔ ہمارے دشمن اس منصوبے کو روکنے کے لیے سب کچھ کرینگے۔ سیاستدان، میڈیا، قوم پرست جماعتیں اور داعش کی طرح کے دہشت گردوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائیگا۔ یاد کیجیے2004 میں عبد اللہ محسود نے امریکہ سے " رہا " ہوتے ہی سب سے پہلے گوادر پراجیکٹ پر حملہ کر دیا تھا اور اس کو بند کروانے کی کوشش کی تھی
اس وقت بعض نادان سیاست دان اس منصوبے سے خطرناک انداز میں کھیل رہے ھیں۔ پہلے انھوں نے روٹس چھپا کر قوم پرست جماعتوں کو بغاوت پر آمادہ کیا اور اس پر کام روکے رکھا۔ پاک فوج کے دباؤ پر جب یہ معاملہ حل ہوا تو انھوں نے اس منصوبے کے لیے آنے والی ابتدائی سرمایہ کاری کو اپنے اورینج ٹرین نامی احمقانہ منصوبے کی طرف ڈائورٹ کرنے کی کوشش کی جس کے لیے مجبوراً چین نے الگ سے قرض دے کر اپنی جان چھڑائی۔ اب دوبارہ اس منصوبے کے بعض حصوں پر سیاسی وجوہات کی بنا پر کام روکا گیا ہے جس کی شکایت جنرل راحیل شریف نے نواز شریف سے اپنی تازہ ترین ملاقات میں بھی کی۔

کل بھوشن نے اس منصوبے کے خالف انڈین اور ایرانی عزائم کا پول کھول دیا۔ لیکن اس پر بھی نواز شریف نے بھیانک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ وہ واحد ادارہ جو حقیقی معنوں میں اس عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات تن من دھن سے کوشاں ہے وہ پاک فوج ہی ہے اور پاکستان کے موجودہ سپاہ سالار جنرل راحیل شریف اس معاملے میں اپنا عزم بارہا دہرا چکے ہیں۔ اس منصوبے کے لیے ان کی کوششوں اور بھاگ دوڑ کا مشاہدہ اس وقت پوری قوم کر رہی ہے۔
ایسی حالت میں جب کہ سیاستدان اپنی خود غرضانہ لڑائیوں، لوٹ مار، جلسوں اور نفرت انگیز بیان بازیوں میں مصروف ہیں اس منصوبے کی تکمیل کا ذریعہ اللہ نے پاک فوج کو ہی بنا رکھا ہے اور اس وقت ہمیں اپنی پاک افواج کے ساتھ بھر پور انداز میں کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

Mohsin  Majeed

Comments

Popular posts from this blog

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border a...

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border and I brought him to Lahore.  لاہور دھماکے کے گرفتار سہولت کار کا اعترافی بیان سامنے آگیا۔

داستان گمنام محافظوں کی

شہید ہونے والی آئی ایس آئی آفیسر کو داعش نے نہیں پنجابی طالبان نے شہید کیا ہے۔ شرٹ کی بیک سائیڈ پہ لکھی ہوئی تحریر جسے عربی انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اردو اندازِتحریر ہے عربی نہیں۔ بچے کھچے پنجابی طالبان جو ٹی ٹی پی کے ہیں وہ داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں جس کے پیچھے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے والے عالمی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ داعش پاکستان میں بہت فعال ہو چکی ہے۔ تا کہ پرامن پاکستان کے متعلق جو تاثر دنیا میں قائم ہو رہا ہے وہ مسخ ہو سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کی تشہیر اس انداز سے کی جائے کہ شام و عراق میں لڑنے والے جتھے جو داعش کی پیروی میں لڑ رہے ہیں وہ یہاں کا رخ کریں۔ اسطرح جوجنگ وہاں مسلط ہے وہ پھیل کر یہاں آجائے ساری زندگی گمنامی میں رہ کر ہماری حفاظت کرنے والے عام طور پر گمنامی میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا اور وہ ہم پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان جب شہید ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اور اس ملک کےلیے شہید ہوئے ہیں، ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارے دفاع پہ متعین کتنے شوق سے اللہ کی راہ ...

ہیڈکانسٹیبل رافعہ قسیم

سال 2002کے بعد جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کیں تو معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ حملہ آوروں نے 1000 سے زائد سکولوں اور درجنوں ہسپتالوں، پلوں، نجی املاک، پولیس تھانوں اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنازوں، مساجد اور مزاروں تک کو نہیں بخشا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا ان کا خصوصی طور پر نشانہ بنے۔ لاتعداد سرکاری ملازمین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد علاقوں میں ملازمین کو حالات کے جبر کے باعث ملازمتیں بھی چھوڑنی پڑیں۔ سال 2007کے بعد حملوں کی تعداد میں یکدم شدت آئی تو صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی اور اس سے نمٹنے کے لئے جہاں ہماری افواج میدان میں ایک نئے جذبے کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوئیں، وہاں ایف سی اور پولیس بھی عوام کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آئیں۔ایک اندازے کے مطابق سال 2013 تک صوبہ خیبرپختونخوا کے 1570 سے زائد پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں جن میں 100افسران بھی شامل ہیں۔ پولیس نے نہ صرف سیکڑوں شہادتیں دیں بلکہ عوام کے تحفظ کے لئے 24خودکش حملوں سمیت 80 سے زائد براہ راست حملے بھی بر...