سال 2002کے بعد جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کیں تو معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ حملہ آوروں نے 1000 سے زائد سکولوں اور درجنوں ہسپتالوں، پلوں، نجی املاک، پولیس تھانوں اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنازوں، مساجد اور مزاروں تک کو نہیں بخشا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا ان کا خصوصی طور پر نشانہ بنے۔ لاتعداد سرکاری ملازمین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد علاقوں میں ملازمین کو حالات کے جبر کے باعث ملازمتیں بھی چھوڑنی پڑیں۔ سال 2007کے بعد حملوں کی تعداد میں یکدم شدت آئی تو صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی اور اس سے نمٹنے کے لئے جہاں ہماری افواج میدان میں ایک نئے جذبے کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوئیں، وہاں ایف سی اور پولیس بھی عوام کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آئیں۔ایک اندازے کے مطابق سال 2013 تک صوبہ خیبرپختونخوا کے 1570 سے زائد پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں جن میں 100افسران بھی شامل ہیں۔ پولیس نے نہ صرف سیکڑوں شہادتیں دیں بلکہ عوام کے تحفظ کے لئے 24خودکش حملوں سمیت 80 سے زائد براہ راست حملے بھی برداشت کئے۔
یہ فورس اپنے بہادر افسران اور اہلکاروں کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف دیوار بن کر کھڑی ہو گئی اور اس دیوار کی تشکیل اور مزاحمت حضرات کے علاوہ خواتین بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ درجنوں سیکڑوں خواتین تمام تر خطرات کے باوجود نہ صرف پولیس فورس کا حصہ بنیں بلکہ لاتعداد نے دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لئے عملی جدوجہد میں حصہ بھی لیا اور یہ ثابت کیا کہ خواتین بھی اپنے وطن کے لئے جانوں کا نذرانہ دینے میں پیش پیش ہیں۔ ان خواتین میں پختونخوا پولیس کی 29سالہ ہیڈ کانسٹیبل رافعہ قسیم بیگ سرِفہرست ہیں 2009کے دوران ایک ایسے وقت میں اس فورس کو جوائن کیا جب کچھ پولیس والے اور سرکاری ملازمین حضرات حملہ آوروں کے خوف سے چھٹیوں پر جانے میں عافیت سمجھ رہے تھے۔پشاور سے تعلق رکھنے والی رافعہ قسیم نے اپنی کمٹمنٹ، حوصلے اور جرأت کے لئے پورے ملک بلکہ دنیا میں الگ شناخت بنائی ہے۔ انہوں نے قانون کی ڈگری کے علاوہ ماسٹرز کی دو ڈگریاں بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ پولیس فورس کی سب سے بہادر اور کوالیفائیڈ خاتون ہیں اور وہ ایک سِمبل کی صورت اختیار کر گئی ہیں تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
عملاً رافعہ بظاہر ایک عام اور معمولی پوسٹ پر اپنے جنون، محبت اور جذباتی وابستگی جیسے عوامل کے باعث شاندار خدمات سرانجام دیتی آئی ہیں۔ رافعہ کا انتخاب حا ل ہی میں بم ڈسپوزل یونٹ کی ایک خصوصی ٹریننگ کے لئے کیا گیا اور وہ اس وقت نوشہرہ میں قائم سکول آف ایکسپلوسیوہینڈلنگ میں خصوصی تربیت حاصل کرنے میں مصروف تھیں۔ اس ٹریننگ میں ان کے ساتھ 30دیگر متعلقہ اہلکار بھی حصہ لے رہے تھے تاہم وہ اس گروپ میں شامل واحد خاتون ہیں اور ان کو نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا کی پہلی بم ناکارہ بنانے والی پہلی خاتون کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے انتخاب پر ملکی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی مثبت تبصرے شائع کئے اور وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ٹریننگ کی تکمیل کے بعد وہ بم ناکارہ بنائے جانے والے ادارے بم ڈسپوزل سکواڈ کا حصہ بن جائیں گی اور یوں وہ اس میدان میں ایشیا کی پہلی خاتون کا اعزاز پانے کا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اپنی خصوصی بات چیت میں رافعہ قسیم بیگ نے کہا کہ جس روز وہ پولیس فورس کے لئے انٹرویو اور ٹسٹ دینے آئی تھیں اس روز پشاور کے سیشن کورٹ میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں کئی لوگ شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ انہوں نے کہانی سناتے ہوئے کہا
زندگی کے کسی موڑ پر اگر فرائض سرانجام دیتے موت سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تو میں اسے بخوشی سینے سے لگانے میں دیر نہیں لگاؤں گی کیونکہ دوسروں کے لئے محاذ جنگ پر لڑ کر جان دینے والے خوش نصیب ہوا کرتے ہیں۔
’’میں اپنی والدہ کے ساتھ انٹرویو اور ٹسٹ دینے پشاور آئی ہوئی تھی اور متعلقہ دفتر میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی کہ اس دوران مذکورہ دفتر کے کچھ ہی فاصلے پر واقع سیشن کورٹ پر حملہ کیا گیا۔ جس نے پورے پشاور کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہم جہاں موجود تھے وہ مقام بھی دھماکے کی شدت اور آواز سے لرز کر رہ گیا۔ بہت سے دیگر لوگوں کی طرح میری والدہ بھی سخت پریشان اور خوفزدہ ہو گئیں۔ دھماکے کے بعد والدہ نے مجھے کہا کہ پولیس وغیرہ جوائن کرنے یا انٹرویو دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ارادہ ترک کر کے گھر واپس چلی جاؤ۔ میں نے مسکراتے ہوئے والدہ کو کہا کہ ماں موت کا ایک دن مقرر ہے۔ ہم میں سے کوئی اپنی موت کے وقت کو کسی بھی احتیاط یا بہانے کے ذریعے ٹال نہیں سکتا۔ میں نے یہ سمجھا کر ان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ جس دھماکے یا حملے میں لوگ شہید یا زخمی ہوئے تھے، ان میں سے کتنے لوگوں کا تعلق پولیس یا کسی اور فورس کے ساتھ تھا۔ میں نے والدہ کو سمجھایا کہ اگر ہم محض اس وجہ سے اپنی فورسز میں خدمات سرانجام دینے سے گھبراتے رہے کہ یہاں پر جان کا خطرہ زیادہ ہے تو ہمارے ملک اور عوام کی حفاظت کون کرے گا۔ بڑی منت سماجت اور دلائل کے بعد والدہ نے انٹرویو دینے کی اجازت دے دی جس کے بعد پولیس فورس میں میرا انتخاب ہوا۔ اور میں نے یہ ارادہ کر کے تربیت لینی شروع کی کہ میں محض نوکری کے لئے یہ فورس جوائن نہیں کر رہی بلکہ ایک جذبے اور مشن کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مقصد کے لئے بھی کام کروں گی۔
میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اپنے ملک اور عوام کی حفاظت کے لئے نہ صرف اپنی بہترین اور غیرمروجہ کارکردگی کا مظاہرہ کروں گی بلکہ وقت آنے پر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کروں گی۔ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہوں کہ عورت ہونا کسی بھی طور پر کمزوری کا سبب نہیں بن سکتا۔ خدا نے عورتوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے اور ہم نے عملی جدوجہد اور اپنی کارکردگی کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم کسی بھی شعبے میں مرد حضرات سے کم نہیں ہیں۔
رافعہ قسیم سے جب یہ پوچھا گیا کہ پشاور جیسے خطرناک شہر میں ڈیوٹی دیتے وقت ایک خاتون ہونے کے باوجود ان کو ڈر نہیں تھا تو انہوں نے کہا وہ بنیادی طور پر اسی شہر سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں حالات کا علم تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہوں کہ عورت ہونا کسی بھی طور پر کمزوری کا سبب نہیں بن سکتا۔ خدا نے عورتوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے اور ہم نے عملی جدوجہد اور اپنی کارکردگی کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم کسی بھی شعبے میں مرد حضرات سے کم نہیں ہیں۔ مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں کمزور یا کمتر ہوں کیونکہ عملاً ایسا ہے ہی نہیں۔ جن دنوں ہم نے ٹریننگ لینی شروع کی ان دنوں پشاور بدترین حملوں اور دھماکوں کی زد میں تھا۔ روزانہ کے حساب سے حملے ہوا کرتے تھے۔ تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ ہم دھماکوں اور حملوں کے عادی ہو چکے تھے۔ ہم نے دوران ٹریننگ بھی کئی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ یہ صورت حال میرے لئے جہاں دکھ کی وجہ بنی ہوئی تھی وہاں اسی حالت نے میرے ارادے اور مقصد کو اور بھی مضبوط اور پختہ کیا۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اپنے ملک اور عوام کی حفاظت کے لئے نہ صرف اپنی بہترین اور غیرمروجہ کارکردگی کا مظاہرہ کروں گی بلکہ وقت آنے پر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کروں گی۔ ابتدائی ہفتوں کے دوران میں نے پشاور کے ایک ایسے مضافاتی پولیس سٹیشن کی حدود میں ایک کارروائی میں بھی حصہ لیا جو کہ ہر روز دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں رہا کرتا تھا۔ میں نے پہلی بار ایک ایسا بھاری ہتھیار بھی چلایا جس کے چلانے کی نہ تو مجھے تربیت دی گئی تھی اور نہ ہی مجھے اس کے استعمال کا طریقہ معلوم تھا۔ میں یہ دکھانا چاہ رہی تھی کہ اگر خواتین تعلیمی اور طبی اداروں میں خدمات سرانجام دے سکتی ہیں تو پولیس اور ایسی دیگر فورسز میں شامل ہو کر اپنے وطن اور عوام کی حفاظت کے لئے عملی طور پر کیوں نہیں ہوسکتیں؟‘‘
اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کسی اور ادارے میں جاب کے لئے کوشش یا خواہش کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تعلیم یا ڈگریاں اس لئے حاصل نہیں کیں کہ ان کے ذریعے میں کوئی ایسی نوکری حاصل کروں جس میں مراعات زیادہ ہوں اور میں اقتصادی طور پر مستحکم ہو جاؤں۔ اعلیٰ تعلیم کا حصول اگر محض ملازمت کا حصول یا لگژری لائف انجوائے کرنا ہو تو یہ کام بے شمار دیگر لوگ بھی کر رہے ہیں۔ میں نے اپنی ذہنی صلاحیتیں بڑھانے کے لئے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور میں یہ بھی دکھانا چاہ رہی ہوں کہ اصل چیز آپ کا جذبہ، لگن او رکچھ خاص کرنے کا شوق ہے۔ ناکہ سٹیٹس یامراعات۔ میں پولیس فورس سے بہت مطمئن ہوں۔ زندگی کے کسی موڑ پر اگر فرائض سرانجام دیتے موت سامنے آکر کھڑی ہو گئی تو میں اسے بخوشی سینے سے لگانے میں دیر نہیں لگاؤں گی کیونکہ دوسروں کے لئے محاذ جنگ پر لڑ کر جان دینے والے خوش نصیب ہوا کرتے ہیں۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کا حصہ بننے کے فیصلے پر انہوں نے یوں تبصرہ کیا کہ ایک تو یہ کہ اس یونٹ میں ہر وقت جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ یہ اطمینان بھی رہتا ہے کہ آپ دوسروں کی جانیں بچانے کے لئے بموں اور بارود سے بھی کھیل سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ ملک بچانے کی جنگ میں خواتین کی بھی ذمہ داری ہے اور تیسرا یہ کہ ملک پاکستان، ہمارے لئے ماں کا مقام رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کی جنگ میں مائیں، بیٹیاں اور بہنیں بھی حصہ دار ہونی چاہئیں۔
Comments
Post a Comment