Skip to main content

داستان گمنام محافظوں کی


شہید ہونے والی آئی ایس آئی آفیسر کو داعش نے نہیں پنجابی طالبان نے شہید کیا ہے۔ شرٹ کی بیک سائیڈ پہ لکھی ہوئی تحریر جسے عربی انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اردو اندازِتحریر ہے عربی نہیں۔ بچے کھچے پنجابی طالبان جو ٹی ٹی پی کے ہیں وہ داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں جس کے پیچھے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے والے عالمی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ داعش پاکستان میں بہت فعال ہو چکی ہے۔ تا کہ پرامن پاکستان کے متعلق جو تاثر دنیا میں قائم ہو رہا ہے وہ مسخ ہو سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کی تشہیر اس انداز سے کی جائے کہ شام و عراق میں لڑنے والے جتھے جو داعش کی پیروی میں لڑ رہے ہیں وہ یہاں کا رخ کریں۔ اسطرح جوجنگ وہاں مسلط ہے وہ پھیل کر یہاں آجائے
ساری زندگی گمنامی میں رہ کر ہماری حفاظت کرنے والے عام طور پر گمنامی میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا اور وہ ہم پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان جب شہید ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اور اس ملک کےلیے شہید ہوئے ہیں، ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارے دفاع پہ متعین کتنے شوق سے اللہ کی راہ میں جان دے دیتے ہیں۔ لیکن اس گمنام دستے کے لوگ وہ عظیم ترین مجاہد ہیں جن کی شہادت پر اکثر ہماری دعائیں بھی ان کو نہیں ملتیں، پتہ ہے کیوں؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا وہ کب کس لمحے اللہ کی رضا کی خاطر ہم پر قربان ہو گئے ہیں۔
ان شہداء کا مقام و مرتبہ اتنا عظیم اور بلند ہے کہ ہم گماں تک بھی نہیں کر سکتے۔ اور ان کا مقام ہمارے دلوں میں اتنا زیادہ کہ بیان کےلیے شائد لفظ بھی نہ مل پائیں۔ میرے پاس لفظ اور آنکھوں میں آنسو ہیں محض ان شہداء کو پیش کرنے کےلیے۔ بڑا غریب سا محسوس کر رہا ہوں خود کو۔ دینے والے ہمارے لیے اپنی جان دے کر چلے جاتے ہیں اور ہم چاہنے کے باوجود فقط دعا کے سوا ان کو کچھ بھی نہیں دے پاتے۔ واقفِ حال لوگ جانتے ہیں، کچھ اس ملک کےلیے شہید ہوئے اور ان کے بیوی بچوں کو شہادت تک نہیں پتہ تھا کہ یہ عجیب و غریب سودا کر چکے ہیں۔ یہ اپنی جان کے بدلے ہماری بقاء اور ہماری حفاظت کا سودا کر چکے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی زندگی میں اپنے اہل و عیال سے وعدہ لے لیتے ہیں کہ دیکھو فرض بہت بھاری ہے۔ وعدہ کرو اگر کبھی میں فرض کی راہ میں قربان ہو گیا تو میرے بعد کبھی افسوس نہیں کرنا کہ بے مقصد جان سے گیا۔
خدارا ان شہادتوں کا رائیگاں مت جانے دینا۔ جو حفاظت پہ متعین ہیں وہ روز شہید ہو رہے ہیں۔ کچھ کا آپ کو پتہ چل جاتا ہے کچھ کا نہیں۔ یہ جنگ ہماری بقاء کی آخری جنگ ہے۔ امن کے دشمن اگر جیت گئے تو ہماری نسلوں اور اسلام کی شناخت مٹا دیں۔ ہمیں ان کے ساتھ مل کے لڑنے کی ضرورت ہے جو ہمارے پسینے کی جگہ اپنا خون گراتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم میں اکثر ملا فضل اللہ جیسے لوگوں کو عالمِ دین سمجھتے تھے؟ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اب بھی ہم میں وہ لوگ موجود ہیں جو داعش کی بیعت کرنے والے مولوی عبدالعزیز کو عالمِ دین سمجھتے ہیں؟ یہ جنگ ہم سب کے لڑنے کی ہے۔
خود سے وعدہ کروکہ اپنے محافظوں کے ساتھ کھڑے ہو کر لڑو گے۔ ان شہداء کو جو ہمارے لیے قربان ہوتے ہیں خراجِ تحسین دینے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں کریں گے۔ ہم کبھی کسی ایسے انسان کو عالمِ دین نہیں کہیں گے جو اسلام کا ترجمہ دھشت گردی، وحشت اور بربریت کے الفاظ میں کرتا ہے۔ خود سے وعدہ لو کہ ہم کبھی کسی ایسے انسان کا ساتھ نہیں دیں گے جو انسانیت کے دشمن کو انسانیت کا دشمن کہنے میں ہچکچاتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border a...

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border and I brought him to Lahore.  لاہور دھماکے کے گرفتار سہولت کار کا اعترافی بیان سامنے آگیا۔

ہیڈکانسٹیبل رافعہ قسیم

سال 2002کے بعد جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کیں تو معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ حملہ آوروں نے 1000 سے زائد سکولوں اور درجنوں ہسپتالوں، پلوں، نجی املاک، پولیس تھانوں اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنازوں، مساجد اور مزاروں تک کو نہیں بخشا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا ان کا خصوصی طور پر نشانہ بنے۔ لاتعداد سرکاری ملازمین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد علاقوں میں ملازمین کو حالات کے جبر کے باعث ملازمتیں بھی چھوڑنی پڑیں۔ سال 2007کے بعد حملوں کی تعداد میں یکدم شدت آئی تو صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی اور اس سے نمٹنے کے لئے جہاں ہماری افواج میدان میں ایک نئے جذبے کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوئیں، وہاں ایف سی اور پولیس بھی عوام کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آئیں۔ایک اندازے کے مطابق سال 2013 تک صوبہ خیبرپختونخوا کے 1570 سے زائد پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں جن میں 100افسران بھی شامل ہیں۔ پولیس نے نہ صرف سیکڑوں شہادتیں دیں بلکہ عوام کے تحفظ کے لئے 24خودکش حملوں سمیت 80 سے زائد براہ راست حملے بھی بر...