Skip to main content

پاک فوج کی دکھتی رگ پر ہاتھ ۔۔۔۔۔۔ !


نواز شریف جانتا ہے کہ پاک فوج پانامہ کیس کے معاملے میں بلکل غیر جانبدار ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ پر پہلے کی طرح حملہ کرنے کی کوشش کی گئی یا ججوں کو ہراساں کیا گیا تو فوج ان کو تحفظ دے گی۔ اس لیے اس وقت انہیں فوج زہر لگ رہی ہے پاک فوج پر دباؤ بڑھانے کے لیے نواز شریف نے اب کشمیر سے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے آزاد کشمیر کے ن لیگی وزیراعظم اور گلگت کے ن لیگی وزیراعلی کے بیانات اس سلسلے کی پہلی کڑی تھے سوشل میڈیا پر کام کرنے والے کئی گستاخانہ پیجز کے ڈانڈے آزاد کشمیر راؤلاکوٹ میں کام کرنے والے چند سرخوں سے ملتے ہیں جو اسلام کے علاوہ پاکستان اور پاک فوج کے خلاف بھی زہر اگلتے رہتے ہیں ان میں سے چند ایک کی گرفتاریاں ہوئیں تو ن لیگی اتحادی اے این پی نے انکو چھڑا لیا تھا مریم نواز نے منصوبہ بنایا ہے کہ ان پاکستان مخالف عناصر کی مدد سے اس بار پاکستان کے یوم آزادی کو آزاد کشمیر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے ایک تاریخی دھچکہ ہوگا اگر آن گراؤنڈ نہ کر سکے تو کم از کم اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے سوشل میڈیا پر یہ مہم ضرور چلائی جائیگی جسکو بی بی سی اور جنگ گروپ وغیرہ مطلوبہ کوریج دے دینگے پاک فوج کو پیغام دیا جائیگا کہ نواز شریف چھیڑا تو کشمیر ہاتھ سے نکل جائیگا تیسری طرف نواز شریف نے چودھری نثار جیسے محب وطن اور دبنگ شخص کی جگہ خواجہ آصف کو وزیر خارجہ مقرر کردیا ہے۔ خواجہ آصف نے نہ صرف پارلیمنٹ کے فلور پر پاک فوج کو گالیاں دی تھیں بلکہ موصوف نے امریکہ میں جاکر حافظ سعید صاحب کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ حافظ سعید کشمیر کے لیے پاکستان سے اٹھنے والی سب سے طاقتور آواز ہے کشمیر پاک فوج کی دکھتی رگ ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو انڈیا سے نجات دلانے کے لیے پاک فوج اب تک 4 بڑی جنگیں لڑ چکی ہے کشمیر سے کھیلنا آگ سے کھیلنا ہے۔ یہ نہ صرف سی پیک کا گلہ گھونٹ دے گا بلکہ کشمیر کے لیے پاکستان کی 70 سالہ قربانیوں پر بھی پانی پھیر دے گا عاصمہ جہانگیر، فضل الرحمن اور میر شکیل الرحمن وغیرہ پاک فوج کو براہ راست للکار رہے ہیں جسکو نواز شریف کی للکار سمجھا جا رہا ہے <script async src="//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script><script async src="//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
<script> (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({ google_ad_client: "ca-pub-8342332639217273", enable_page_level_ads: true }); </script><script> (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({ google_ad_client: "ca-pub-8342332639217273", enable_page_level_ads: true }); </script>

Comments

Popular posts from this blog

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border a...

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border and I brought him to Lahore.  لاہور دھماکے کے گرفتار سہولت کار کا اعترافی بیان سامنے آگیا۔

داستان گمنام محافظوں کی

شہید ہونے والی آئی ایس آئی آفیسر کو داعش نے نہیں پنجابی طالبان نے شہید کیا ہے۔ شرٹ کی بیک سائیڈ پہ لکھی ہوئی تحریر جسے عربی انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اردو اندازِتحریر ہے عربی نہیں۔ بچے کھچے پنجابی طالبان جو ٹی ٹی پی کے ہیں وہ داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں جس کے پیچھے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے والے عالمی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ داعش پاکستان میں بہت فعال ہو چکی ہے۔ تا کہ پرامن پاکستان کے متعلق جو تاثر دنیا میں قائم ہو رہا ہے وہ مسخ ہو سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کی تشہیر اس انداز سے کی جائے کہ شام و عراق میں لڑنے والے جتھے جو داعش کی پیروی میں لڑ رہے ہیں وہ یہاں کا رخ کریں۔ اسطرح جوجنگ وہاں مسلط ہے وہ پھیل کر یہاں آجائے ساری زندگی گمنامی میں رہ کر ہماری حفاظت کرنے والے عام طور پر گمنامی میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا اور وہ ہم پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان جب شہید ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اور اس ملک کےلیے شہید ہوئے ہیں، ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارے دفاع پہ متعین کتنے شوق سے اللہ کی راہ ...

ہیڈکانسٹیبل رافعہ قسیم

سال 2002کے بعد جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کیں تو معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ حملہ آوروں نے 1000 سے زائد سکولوں اور درجنوں ہسپتالوں، پلوں، نجی املاک، پولیس تھانوں اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنازوں، مساجد اور مزاروں تک کو نہیں بخشا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا ان کا خصوصی طور پر نشانہ بنے۔ لاتعداد سرکاری ملازمین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد علاقوں میں ملازمین کو حالات کے جبر کے باعث ملازمتیں بھی چھوڑنی پڑیں۔ سال 2007کے بعد حملوں کی تعداد میں یکدم شدت آئی تو صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی اور اس سے نمٹنے کے لئے جہاں ہماری افواج میدان میں ایک نئے جذبے کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوئیں، وہاں ایف سی اور پولیس بھی عوام کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آئیں۔ایک اندازے کے مطابق سال 2013 تک صوبہ خیبرپختونخوا کے 1570 سے زائد پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں جن میں 100افسران بھی شامل ہیں۔ پولیس نے نہ صرف سیکڑوں شہادتیں دیں بلکہ عوام کے تحفظ کے لئے 24خودکش حملوں سمیت 80 سے زائد براہ راست حملے بھی بر...