Skip to main content

J-31 اسٹیلتھ جنگی طیارہ جس نے امریکا کی نیندیں اڑادیں


دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا اسٹیلتھ طیارہ ’’ایف سی 31 جرفالکن‘‘ (FC-31 Gyrfalcon) عرف ’’جے 31‘‘ (J-31)، جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کو امریکا کے قریب تر لے آیا ہے کیونکہ اسے صحیح معنوں میں امریکی F-35 ’’جوائنٹ اسٹرائک فائٹر‘‘ (جے ایس ایف) کا مدمقابل کہا جاسکتا ہے۔

35-F

اب تک اس کا دوسرا پروٹوٹائپ آزمائشی پروازیں کرچکا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ چینی فضائیہ میں اس کی شمولیت کا سلسلہ 2022 شروع ہوجائے گا۔ ذرائع ابلاغ سے یہ تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ اس کا سب سے پہلا ممکنہ خریدار پاکستان ہوگا لیکن ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ اس منصوبے میں پاکستانی انجینئر اور سائنسدان بھی چینی ٹیم کے ساتھ شریک ہیں۔یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کیونکہ ایف سی ون (FC-1) منصوبے کو ’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ (JF-17 Thunder) کے طور پر کامیابی سے ہمکنار کرنے میں پاکستانی ماہرین نے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ’’تھنڈر‘‘ صرف چین ہی میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی مقامی طور پر (پی اے سی کامرہ میں) تیار کیا جارہا ہے۔

17-JF

اسی دوران پاکستانی اور چینی فضائیہ میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے تعاون مزید مضبوط ہوگیا اور (غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق) پانچویں نسل کے جدید ترین چینی لڑاکا طیارے ’’جے 20‘‘ (J-20) میں بھی پاکستانی ماہرین شریک ہوچکے ہیں۔ سرِدست یہ منصوبہ بھی تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے اور امید ہے کہ 2017 تک چینی فضائیہ میں 12 عدد جے 20 لڑاکا طیارے شامل ہوچکے ہوں گے جہاں تک جے 31 کا تعلق ہے تو یہ جسامت میں جے 20 سے چھوٹا ضرور ہے لیکن اس کے تقاضے بھی مختلف ہیں۔ اگر آپ لڑاکا طیاروں سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہیں تو آپ کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ اگر ’’جے 20‘‘ کو امریکی ’’ایف 22 ریپٹر‘‘ (Raptor) کا چینی جواب قرار دیا جاسکتا ہے 

20-J

22-F


تو جے 31‘‘ بھی امریکی ساختہ ’’ایف 35‘‘ کا مدمقابل ہے 

35-F


اور یہ بات اس کی جسامت سے بھی ظاہر ہے۔جے 31 بنانے والی ’’شنیانگ ایئرکرافٹ کارپوریشن‘‘ کی جاری کردہ تفصیلات اور فضائی دفاعی ماہرین کے لگائے ہوئے اندازے یکجا کردیئے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایف سی 31 جرفالکن/ جے 31 دو عدد ٹربوفین انجنوں والا، پانچویں نسل کا اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ ہے جو ہیلمٹ پر نصب، اگلی نسل کے بصری آلات (نیکسٹ جنریشن ہیلمٹ ماؤنٹڈ سائٹ)، ہولوگرافک کاک پٹ ڈسپلے اور الیکٹرو آپٹیکل ٹارگٹنگ سسٹم (ای ٹی او ایس) سے یقینی طور پر لیس ہے۔اس کی جسامت اور ظاہری خدوخال سے پتا چلتا ہے کہ اس میں ’’شارٹ ٹیک آف اینڈ ورٹیکل لینڈنگ‘‘ (STOVL) کی صلاحیت بھی ہے۔ یعنی یہ کم فاصلہ طے کرکے اڑان بھرنے اور (ہیلی کاپٹر کی طرح) سیدھا زمین پر اُترنے کے قابل ہے۔ 
 vertical landing
یہ صلاحیت اُن طیاروں کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے جنہیں طیارہ بردار بحری جہازوں پر رکھنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی توقع کی جاسکتی ہے کہ جے 31، طیارہ بردار چینی بحری بیڑے کا حصہ بنایا جائے گا مغربی دفاعی ماہرین کو اب تک یہ سوال بری طرح کھٹک رہا ہے کہ آخر چین نے کس طرح سے انجن اور ریڈار جیسے اہم نظام مقامی طور پر تیار کرلیے ہیں اور یہ کہ مختلف الاقسام ٹیکنالوجیز کو کس طرح سے ایک چھوٹے طیارے میں سمودیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کیونکہ جے 31 منصوبے کے بارے میں دنیا کو پہلی باقاعدہ اطلاع ستمبر 2011 میں چینی حکومت کی جاری کردہ ایک تصویر سے ملی جس پر ’’F-60‘‘ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ بعد ازاں اس طیارے کی اوّلین مصدقہ آزمائشی پرواز 31 اکتوبر 2012 میں ہوئی۔ جے 31 سے متعلق اس سے پہلے کی معلومات دستیاب نہیں۔امریکی دفاعی ماہرین کو جے 31 اور جے 20، دونوں سے یہ خطرہ ہے کہ اگر ان طیاروں کی ٹیکنالوجی امریکی ایف 22 ریپٹر سے کم تر درجے کی بھی ہوئی تب بھی یہ اتنی بڑی تعداد میں ہوں گے امریکی فضائیہ کے لیے ان کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ اس وقت امریکا کے پاس جنگ کےلیے تیار صرف 120 عدد ریپٹر موجود ہیں۔ 
جے 31 کی چیدہ چیدہ تفصیلات یہ ہیں:

1-عملہ: 1 (پائلٹ)
2-لمبائی: 16.9 میٹر (55 فٹ 5 انچ)
3-بازؤوں کا پھیلاؤ: 11.5 میٹر (37 فٹ 9 انچ)
4-اونچائی: 4.8 میٹر (15 فٹ 9 اِنچ)
5-بازؤوں کا رقبہ: 40 مربع میٹر (430 مربع فٹ)
6-مجموعی وزن: 17,600 کلوگرام (38,801 پاؤنڈ)
7-ٹیک آف پر زیادہ سے زیادہ وزن: 25,000 کلوگرام (55,116 پاؤنڈ)
8-انجن (پروٹوٹائپ): 2 عدد RD-93 آفٹر برننگ ٹربو فینز؛ اور ہر انجن کا انفرادی تھرسٹ 84,000 نیوٹن
9-انجن (پروڈکشن ایئرکرافٹ): 2 عدد WS-13A آفٹر برننگ ٹربو فینز؛ اور ہر انجن کا انفرادی تھرسٹ 100,000 نیوٹن
10-انتہائی رفتار: 2,200 کلومیٹر فی گھنٹہ (ماک 1.8)
11-حربی حدِ ضرب (کومبیٹ رینج): 1,200 کلومیٹر
12-سفری حد (فیری رینج): 4,000 کلومیٹر

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border a...

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border and I brought him to Lahore.  لاہور دھماکے کے گرفتار سہولت کار کا اعترافی بیان سامنے آگیا۔

داستان گمنام محافظوں کی

شہید ہونے والی آئی ایس آئی آفیسر کو داعش نے نہیں پنجابی طالبان نے شہید کیا ہے۔ شرٹ کی بیک سائیڈ پہ لکھی ہوئی تحریر جسے عربی انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اردو اندازِتحریر ہے عربی نہیں۔ بچے کھچے پنجابی طالبان جو ٹی ٹی پی کے ہیں وہ داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں جس کے پیچھے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے والے عالمی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ داعش پاکستان میں بہت فعال ہو چکی ہے۔ تا کہ پرامن پاکستان کے متعلق جو تاثر دنیا میں قائم ہو رہا ہے وہ مسخ ہو سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کی تشہیر اس انداز سے کی جائے کہ شام و عراق میں لڑنے والے جتھے جو داعش کی پیروی میں لڑ رہے ہیں وہ یہاں کا رخ کریں۔ اسطرح جوجنگ وہاں مسلط ہے وہ پھیل کر یہاں آجائے ساری زندگی گمنامی میں رہ کر ہماری حفاظت کرنے والے عام طور پر گمنامی میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا اور وہ ہم پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان جب شہید ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اور اس ملک کےلیے شہید ہوئے ہیں، ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارے دفاع پہ متعین کتنے شوق سے اللہ کی راہ ...

ہیڈکانسٹیبل رافعہ قسیم

سال 2002کے بعد جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کیں تو معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ حملہ آوروں نے 1000 سے زائد سکولوں اور درجنوں ہسپتالوں، پلوں، نجی املاک، پولیس تھانوں اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنازوں، مساجد اور مزاروں تک کو نہیں بخشا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا ان کا خصوصی طور پر نشانہ بنے۔ لاتعداد سرکاری ملازمین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد علاقوں میں ملازمین کو حالات کے جبر کے باعث ملازمتیں بھی چھوڑنی پڑیں۔ سال 2007کے بعد حملوں کی تعداد میں یکدم شدت آئی تو صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی اور اس سے نمٹنے کے لئے جہاں ہماری افواج میدان میں ایک نئے جذبے کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوئیں، وہاں ایف سی اور پولیس بھی عوام کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آئیں۔ایک اندازے کے مطابق سال 2013 تک صوبہ خیبرپختونخوا کے 1570 سے زائد پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں جن میں 100افسران بھی شامل ہیں۔ پولیس نے نہ صرف سیکڑوں شہادتیں دیں بلکہ عوام کے تحفظ کے لئے 24خودکش حملوں سمیت 80 سے زائد براہ راست حملے بھی بر...