Skip to main content

ﮬﻨﺪﻭ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮓ ﺧﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮍﯼ ۔ ﯾﮧ ﻗﻮﻡ ﮬﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ۔

ﮬﻨﺪﻭ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮓ ﺧﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮍﯼ ۔ ﯾﮧ ﻗﻮﻡ ﮬﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺠﺌﯿﮯ ۔ ﮬﻨﺪﻭ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮓ ﺧﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮍﯼ ۔ ﯾﮧ ﻗﻮﻡ ﮬﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ۔ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺣﻤﻠﮧ ﺁﻭﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻟﮍﮮ ﺷﮑﺴﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯽ ۔ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﻣﻐﻠﻮﮞ ﺗﮏ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ، ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺩﻭﻟﺖ ﻟﻮﭨﺎ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﮐﯽ ۔ ﯾﮧ ﻗﻮﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺳﮧ ﻟﯿﺴﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮬﮯ۔ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻏﻠﺒﮧ ﭘﺎ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﯾﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺗﻠﻮﮮ ﭼﺎﭨﺘﮯ ﺭﮬﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻮ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﺮﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﻤﯿﭩﺘﮯ ﻋﯿﺎﺷﯿﺎﮞ ﮐﺮﺗﮯ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﭺ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺑﮩﻼ ﮐﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﯿﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮧ ﻧﮑﻠﻮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﻡ ﮐﯽ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﯿﺘﺎ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺭﺍﻭﻥ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﻨﮑﺎ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﮐﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﯿﺘﺎ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺭﺍﻭﻥ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﮒ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ۔ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﻨﺪﺭ ﮐﻮ ﮬﻨﻮﻣﺎﻥ ﺩﯾﻮﺗﺎ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﻮﺟﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ ﺻﺮﻑ ﺑﻨﺪﺭ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮬﺎﺗﮭﯽ ﺳﺎﻧﭗ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﺒﮭﯽ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﮭﮕﻮﺍﻥ ﮬﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭘﻮﺟﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺠﺌﯿﮯ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮬﺎﺗﮭﯽ ﺳﺎﻧﭗ ﺑﻨﺪﺭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﮬﯿﺮﻭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺑﻨﺪﺭ ﮐﺘﮯ ﯾﺎ ﺳﺎﻧﭗ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﻦ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﮨﯽ ﻭﺟﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﺳﮯ ﭘﻨﺠﮧ ﺁﺯﻣﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﺘﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺯﺷﻮﮞ ﭼﺎﻻﮐﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﺸﮧ ﺩﻭﺍﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﺳﮯ ﻟﮍﺍ ﮐﺮ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ 71 ﻣﯿﮟ ﺑﻨﮕﺎﻟﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻻ ﮐﮭﺮﺍ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻓﻮﺝ ﮔﻮﻟﯽ ﭼﻼﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﮮ ﮔﯽ ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻼﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﻣﻮﻡ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ ۔ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﯾﮩﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﺮ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﮭﮍﮐﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻣﮕﺮ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮬﻮﮐﺮ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻧﯽ ﭘﮍﯼ۔ 65 ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﮔﻨﺎ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﻠﮏ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮐﻢ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﭘﺎﮎ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﺮﮐﺲ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻻﺷﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﻓﺮﺍﺭ ﮬﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮬﻮﮔﺌﮯ ۔ ﺳﺘﺮﮦ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮬﯿﮑﮍﯼ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﺩﻭﮌ ﭘﮍﮮ ۔ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺟﺬﺑﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺟﻮ ﮐﮧ ﭘﯿﻨﺴﭩﮫ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮬﮯ ﻣﻮﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ .......ﮐﯽ ﺟﮭﺎﮒ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮬﯽ ﻣﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﺑﺖ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﺮﺑﺖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ۔ ﮬﻨﺪﻭ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﭘﺸﺖ ﭘﺮ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺳﮯ ﻭﺍﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﺎﺩﯼ ﮬﮯ ۔ ﮬﻨﺪﻭ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺷﻮﮞ ﺳﮯ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﮬﻮﺷﯿﺎﺭ ﺭﮬﻨﺎ ﮬﻮﮔﺎ۔ ﺍﻧﺸﺎﺍﻟﻠﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﭘﻨﮕﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﯿﺠﺌﯿﮯ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺩﻥ ﮬﻮ ﮔﺎ۔ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﺎﺋﻨﺪﮦ ﺑﺎﺩ-

Comments

Popular posts from this blog

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border a...

Suicide Bomber hailed from Afghanistan. Entered through Torkham Border and I brought him to Lahore.  لاہور دھماکے کے گرفتار سہولت کار کا اعترافی بیان سامنے آگیا۔

داستان گمنام محافظوں کی

شہید ہونے والی آئی ایس آئی آفیسر کو داعش نے نہیں پنجابی طالبان نے شہید کیا ہے۔ شرٹ کی بیک سائیڈ پہ لکھی ہوئی تحریر جسے عربی انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اردو اندازِتحریر ہے عربی نہیں۔ بچے کھچے پنجابی طالبان جو ٹی ٹی پی کے ہیں وہ داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں جس کے پیچھے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے والے عالمی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ داعش پاکستان میں بہت فعال ہو چکی ہے۔ تا کہ پرامن پاکستان کے متعلق جو تاثر دنیا میں قائم ہو رہا ہے وہ مسخ ہو سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کی تشہیر اس انداز سے کی جائے کہ شام و عراق میں لڑنے والے جتھے جو داعش کی پیروی میں لڑ رہے ہیں وہ یہاں کا رخ کریں۔ اسطرح جوجنگ وہاں مسلط ہے وہ پھیل کر یہاں آجائے ساری زندگی گمنامی میں رہ کر ہماری حفاظت کرنے والے عام طور پر گمنامی میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا اور وہ ہم پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان جب شہید ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اور اس ملک کےلیے شہید ہوئے ہیں، ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارے دفاع پہ متعین کتنے شوق سے اللہ کی راہ ...

ہیڈکانسٹیبل رافعہ قسیم

سال 2002کے بعد جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں تیز کیں تو معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ حملہ آوروں نے 1000 سے زائد سکولوں اور درجنوں ہسپتالوں، پلوں، نجی املاک، پولیس تھانوں اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنازوں، مساجد اور مزاروں تک کو نہیں بخشا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا ان کا خصوصی طور پر نشانہ بنے۔ لاتعداد سرکاری ملازمین کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد علاقوں میں ملازمین کو حالات کے جبر کے باعث ملازمتیں بھی چھوڑنی پڑیں۔ سال 2007کے بعد حملوں کی تعداد میں یکدم شدت آئی تو صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی اور اس سے نمٹنے کے لئے جہاں ہماری افواج میدان میں ایک نئے جذبے کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوئیں، وہاں ایف سی اور پولیس بھی عوام کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آئیں۔ایک اندازے کے مطابق سال 2013 تک صوبہ خیبرپختونخوا کے 1570 سے زائد پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں جن میں 100افسران بھی شامل ہیں۔ پولیس نے نہ صرف سیکڑوں شہادتیں دیں بلکہ عوام کے تحفظ کے لئے 24خودکش حملوں سمیت 80 سے زائد براہ راست حملے بھی بر...